ابتدائی زندگی اور پس منظر
خواجہ نور محمد مہاروی 2 اپریل 1746 کو چوٹالہ، ضلع بہاولنگر کے قریب، پنجاب کے علاقے میں پیدا ہوئے، جو اب پاکستان میں واقع ہے۔ آپ کا تعلق پنجابی مسلم راجپوت خاندان اور پانور کھرل قبیلے سے تھا۔ ابتدائی طور پر آپ کا نام بہبل رکھا گیا، مگر آپ کے روحانی استاد حضرت محب النبی نے آپ کا نام نور محمد رکھ دیا۔ ان کے مطابق یہ نام آپ کی روحانی عظمت کو ظاہر کرتا تھا۔
ابتدائی دینی تعلیم آپ نے صرف چار سال کی عمر میں شروع کی۔ قرآن مجید حفظ کرنے کی سعادت آپ کو ڈیرہ غازی خان میں حاصل ہوئی۔ دینی علوم کے حصول کی جستجو نے آپ کو لاہور اور بعد میں دہلی تک پہنچا دیا۔ دہلی میں آپ نے مولانا فخرالدین محب النبی سے روحانی رہنمائی حاصل کی اور 1752 میں ان سے بیعت کر کے چشتی سلسلے میں شامل ہو گئے۔
ہارون آباد کے قریب چوٹالہ میں پرورش
چوٹالہ، جو آج ہارون آباد کے قریب ہے، آپ کی ابتدائی پرورش اور زندگی کا اہم مقام رہا۔ ہارون آباد کی تاریخ میں خواجہ نور محمد مہاروی کی شخصیت اور تعلیمات کا بڑا اثر موجود ہے۔ ان کے ابتدائی دنوں میں، یہ علاقہ مختلف ثقافتوں اور مذاہب کا مرکز تھا، اور آپ کی شخصیت نے یہاں کے لوگوں کو دین اسلام کی طرف راغب کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔
روحانی سفر اور تعلیمات
خواجہ نور محمد مہاروی کی تعلیمات محبت، ہمدردی، اور اللہ کی اطاعت پر مبنی تھیں۔ آپ نے پنجاب اور سندھ کے مقامی قبائل کے ساتھ گہرا تعلق قائم کیا اور بے شمار لوگوں کو اسلام کی طرف راغب کیا۔ آپ کی تعلیمات میں روحانی گہرائی اور عملی حکمت کا امتزاج پایا جاتا ہے، جس نے آپ کو آپ کے پیروکاروں میں مقبول بنایا۔
آپ اکثر حضرت بابا فرید گنج شکر کے مزار پر جمعہ کی نماز کے لیے پاکپتن جایا کرتے تھے۔ آپ کے پیروکار آپ کو محبت سے "قبلہ عالم” کے لقب سے یاد کرتے تھے، جو آپ کے صوفی سلسلے میں اعلیٰ مقام کو ظاہر کرتا ہے۔
آپ کی تعلیمات کے بنیادی اصول درج ذیل ہیں:
- حضرت محمد ﷺ کی محبت اور اسلامی شریعت کی پابندی۔
- مخلوق خدا کے ساتھ حسن سلوک کے ذریعے اللہ کو خوش کرنا۔
- انسانی خامیوں کو تسلیم کرنا اور روحانی علاج کی ضرورت کو سمجھنا۔
ہارون آباد کے عوام پر اثرات
ہارون آباد اور اس کے ارد گرد کے علاقوں میں خواجہ نور محمد مہاروی کی تعلیمات نے لوگوں کے دلوں میں اسلامی اقدار کو جلا بخشی۔ مقامی قبائل اور معاشرتی طبقات نے آپ کی رہنمائی میں اپنی زندگیوں میں مثبت تبدیلیاں کیں۔ ہارون آباد کی تاریخ میں آپ کا کردار ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے، کیونکہ آپ نے دین اسلام کی روشنی کو ان علاقوں میں پھیلایا، جو اس وقت صوفی ازم کے مراکز میں شامل ہو چکے ہیں۔
چشتی سلسلے میں کردار
نور محمد مہاروی نے چشتی سلسلے کو پنجاب میں نئی روح بخشی۔ ان کی محنت اور لگن نے نہ صرف پنجاب بلکہ سندھ تک بھی اس صوفی سلسلے کو پھیلایا۔ آپ کے مریدین میں ہارون آباد، بہاولنگر، اور چشتیاں کے کئی علاقے شامل تھے۔
وفات اور درگاہ
خواجہ نور محمد مہاروی 3 اگست 1793 کو اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ آپ کو بستی تاج سرور میں سپرد خاک کیا گیا، جو اب چشتیاں شریف کے نام سے مشہور ہے۔ آپ کا مزار ایک اہم زیارت گاہ بن چکا ہے، جہاں ہر سال 1 سے 3 ذوالحجہ تک آپ کا عرس منایا جاتا ہے۔
مزار کی اہمیت
آپ کے مزار کی تعمیر آپ کی وفات کے فوراً بعد کی گئی۔ یہ جگہ نہ صرف عبادت کا مرکز ہے بلکہ صوفی ازم کے ماننے والوں کے لیے اتحاد کی علامت بھی ہے۔ ہارون آباد کے عوام کے لیے یہ مزار ان کی دینی اور ثقافتی زندگی کا ایک اہم حصہ ہے۔
ہارون آباد میں چشتیاں شریف کی اہمیت
ہارون آباد اور چشتیاں شریف کا تعلق نور محمد مہاروی کی تعلیمات کے بغیر نامکمل ہے۔ ہارون آباد کے لوگوں نے نہ صرف آپ کی تعلیمات کو اپنایا بلکہ ان کے ذریعے اپنے علاقے کو بھی روحانی ترقی کی طرف گامزن کیا۔
خلاصہ
خواجہ نور محمد مہاروی کا شمار اسلامی تصوف کی تاریخ کے عظیم رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ آپ کی زندگی اور تعلیمات نے ہارون آباد اور اس کے ارد گرد کے علاقوں میں دین اسلام کی روشنی کو عام کیا۔ آپ کا مزار آج بھی لوگوں کے لیے ایمان، محبت، اور ہمدردی کا مرکز ہے۔ آپ کی شخصیت نے یہ سبق دیا کہ ایمان اور اخلاص کے ذریعے معاشرتی مسائل کا حل ممکن ہے۔